Orhan

Add To collaction

وحشتِ دل

وحشتِ دل از کنول اکرم قسط نمبر16

وہ پندرہ منٹ کی ریش ڈرائیونگ کرتے گھر پہنچا گھر میں کوئی نہیں تھا کچن سے آوازیں آرہیں تھیں۔۔۔ وہ کچن کی طرف گیا تو ملازمہ کام کر رہی تھی۔۔۔۔ امرین ساوی کہاں ہے؟؟؟ اس نے ساوی کے بارے میں پوچھا ۔ جی وہ تو اپنے کمرے میں ہیں۔۔۔۔۔ اس نے جواب دیا تو درید ساوی کے کمرے کی طرف جانے لگا ۔۔ وہ تیز تیز سیڑھیاں چڑتا ساوی کے کمرے میں پہنچا اور بغیر دستک دئیے اندر داخل ہو گیا ساوی اپنے بال بنا رہی تھی۔۔۔ وہ ایک جھٹکے سے اس کی طرف بڑھا۔۔۔ اور اس کے بال اپنی گرفت میں لے لیے۔۔۔۔ جو میں پوچھوں اس کا سچ سچ جواب دینا۔۔۔۔۔اس نے اس کے بال مضبوطی سے پکڑے کہا۔۔۔ کک کیا ؟؟ وہ ہکلا کے رہ گئی اشعر یہاں کیوں آیا تھا؟؟ مم مجھے نن نہیں پتہ وو وہ کب آئے مم میں ان سے نہیں ملی۔۔۔۔ جھوٹ مت بولو ساوی وہ یہاں آیا تھا میری اس سے بات ہوئی وہ بھی تمہارے فون پر۔۔۔ کہاں تھی تم؟؟ اور اپنا فون اشعر کو کیوں دیا؟؟؟ میری کالز اگنور کر کے تم اس کی کمپنی انجوائے کر رہی تھی؟؟ میں نے کہا تھا کہ اس سے دور رہنا کہا تھا کہ نہیں؟؟؟ وہ اس کے باوں پہ گرفت مضبوط کرتا بول رہا تھا جس سے ساوی کو تکلیف ہو رہی تھی۔۔۔ ککک کہا تھا۔۔۔۔ ساوی روتے ہوئے بولی۔۔ پھر کیوں باز نہیں آئی تم ؟؟ میرے منع کرنے کے بعد بھی اس سے گپ شپ کرتی رہی تم مجھے اگنور کر کے؟؟؟ میں تمہیں آخری بار کہہ رہا ہوں ساوی اس سے دور رہو ورنہ اسے تو مار ہی دوں گا ساتھ میں تمہاری جان بھی لے لوں گا ۔۔۔۔۔ اس کے لہجے میں شدت تھی اور آواز میں غصہ۔۔۔۔ مجھے سچ میں نہیں پتہ اشعر بھائی کب آئے میری ان سے کوئی بات نہیں ہوئی۔۔۔۔۔ مجھے نہیں پتہ انہوں نے کب میرے فون سے آپ سے بات کی۔۔۔۔۔ وہ روتے ہوئے اپنی صفائی دے رہی تھی مگر مقابل شاید اپنے ہوش میں نہ تھا۔۔۔۔ وہ کُچھ پل اسے دیکھتا رہا اور پھر ایک جھٹکے سے اسے چھوڑتا باہر نکل گیا اور وہ بیڈ کے ساتھ ٹیک لگائے پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔۔۔۔ یہ کیسی محبت ہے آپ کی درید جس میں آپ کو مجھ پر اعتبار ہی نہیں ایک بار میری بات نہیں سنی آئے اپنی من مانی کی اور چلے گئے کیا ایسی ہوتی ہے محبت؟؟؟ وہ درید کے رویے کے بارے میں سوچتی ہچکیاں بھرنے لگی۔۔۔۔۔


وہ نیچے آیا تو امرین اپنے کوارٹر کی طرف جا رہی تھی کُچھ سوچ کر اس نے امرین کو آواز دی۔۔۔ جی چھوٹے صاحب ؟؟؟ وہ اس کے سامنے کھڑی ہوتی بولی۔۔۔ گھر میں کوئی آیا تھا کُچھ دیر پہلے ؟؟ اس نے پوچھا ۔۔ جی اشعر صاحب آئے تھے ۔۔۔۔۔ اس نے مودبانہ جواب دیا۔۔ اچھا !!! یہیں لاونج میں بیٹھا تھا؟؟ اس نے اگلا سوال پوچھا نہیں صاحب انہوں نے کہا کہ وہ ساوی بی بی سے ملیں گے اور وہ ان کے کمرے میں ہی ان سے ملنے چلے گئے ۔۔۔۔ اس کی بات پہ درید کو نئے سرے سے اشعر پہ غصہ آیا۔۔۔ کتنی دیر بعد واپس گیا تھا وہ؟؟ جی وہ تو دس پندرہ منٹ بعد ہی واپس چلے گئے تھے ان کے واپس جانے کے بعد میں ساوی بی بی کے کمرے میں گئی تھی تو وہ شاور لے رہی تھیں شاید اسی لیے واپس چلے گئے کہ ان سے بات نہیں ہو سکی۔۔۔۔۔۔ اس نے پھر جواب دیا۔ اس کی بات سن کر درید کو اپنی غلطی کا احساس ہوا جو کُچھ دیر پہلے ساوی پہ غصہ کرنے کی شکل میں کر چکا تھا۔۔۔۔ مطلب یہ سب کُچھ اشعر نے اسے بھڑکانے کے لیے کیا ہے تا کہ میں غصے میں کُچھ الٹا سیدھا کر دوں۔۔۔۔ اور ساوی میری چڑیا اف بہت ہرٹ کر دیا اسے اپنے غصے میں ۔۔ اس نے بے بسی سے سوچا۔۔ میں تمہیں منا لوں گا میری چڑیا۔۔۔ بس اب مجھے چچا اور چچی ماں سے بات کرنی ہی پڑے گی اس سے پہلے کہ اور دیر ہو میں تمہیں ان سے مانگ لوں گا ان کے پیر پکڑنے پڑے تو وہ بھی پکڑ لوں گا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔لیکن اگر وہ پھر بھی نہ مانے تو میں تمہیں سب سے چھین کر لے جاوں گا مگر تمہیں اپنی آنکھوں کے سامنے کسی اور کا نہیں ہونے دوں گا ۔۔۔۔۔ دل میں ارادہ کرتے وہ واپس آفس چلا گیا ساوی کو منانے کا کام بعد پر ٹالتے۔۔۔۔


نادیہ بیگم افرحہ اور شایان کے ساتھ ہی واپس آگئیں تھیں اور اس وقت تھکی ہوئیں لاونج میں بیٹھیں تھی۔۔۔۔ افرحہ کی ساری شاپنگ شایان نے خود اپنی پسند سے کی تھی ۔۔ اس کے مہندی، بارات اور ولیمہ کا ڈریس شایان نے اپنی پسند کا لیا تھا ساتھ میں میچنگ جوتے جیولری بھی شایان کی پسند کے تھےجبکہ بری کے کپڑے نادیہ بیگم اور افرحہ نے خود ہی پسند کیے تھے امرین ساوی کدھر ہے؟؟؟ پانی پینے کے بعد نادیہ بیگم نے ساوی کے بارے میں پوچھا۔۔۔ جی وہ تو اپنے کمرے میں ہیں ۔۔۔۔امرین نے سادگی سے جواب دیا۔۔۔۔۔ اچھا ٹھیک ہے تم چائے بناو ہمارے لیے بہت تھک گئیے آج۔۔۔۔ نادیہ بیگم صوفے پشت سے ٹیک لگاتے بولیں۔۔۔ ماما آج اپنی ہونے والی بہو کے ہاتھ کی چائے پیئیں دیکھیں بھلا کُچھ بنانا آتا بھی ہے کہ نہیں۔۔۔۔۔۔۔ شایان نے افرحہ کی طرف دیکھتے ہوئے شرارت سے کہا۔۔۔ نہیں وہ بہت تھک گئی ہے پھر کبھی پی لیں گے اس کے ہاتھ کی۔۔۔۔ نادیہ بیگم نے افرحہ کے خیال سے کہا ۔ نہیں ماما کوئی بات نہیں میں بناتی ہوں اور ویسے بھی مجھے سب کُچھ بنانا آتا ہے۔۔۔۔ وہ شایان کی طرف گھور کے دیکھتی ہوئی بولی۔۔۔۔ چلو یہ تو اچھی بات ہے پھر شادی کے بعد تمہارے ہاتھ کا بنا ہی کھایا کروں گا ۔۔۔۔۔ وہ اس کے چہرے کی طرف دیکھتا مزے سے بولا۔۔۔۔ جی ضرور ۔۔۔۔۔ وہ بولتی کچن میں چلی گئی۔۔۔۔۔ مت تنگ کیا کرو اسے شایان ۔۔۔۔نادیہ بیگم نے اسے گھورا۔۔۔ ماما تنگ کہاں کر رہا ہوں یہ تو میرے پیار کرنے کا طریقہ ہے۔۔۔۔ وہ نادیہ بیگم کا دوپٹہ منہ میں لیتا لڑکیوں کی طرح شرما کر بولا ۔۔۔۔ صدقے تمہارے پیار کے۔۔۔۔۔نادیہ بیگم ہنستے ہوئے بولیں ۔۔۔۔


افرحہ کے ہاتھ کی چائے پینے کے بعد نادیہ بیگم ساوی کے کمرے میں چلی آئیں تھیں ۔۔۔۔ وہ بستر پہ دراز تھی۔۔۔ ساوی بیٹا ؟؟ انہوں نے اسے آواز دی۔۔۔ جی ماما۔۔۔۔ وہ اُٹھ بیٹھی۔۔۔ کیا بات ہے تمہاری طبیعت ٹھیک ہے؟؟؟ وہ اس کی سرخ سوجھی ہوئیں آنکھیں دیکھتی ہوئیں بولیں۔۔۔۔ جی ماما بس سر میں زرا درد ہے۔۔۔۔۔۔ وہ ان۔سے نظریں چراتی بولی۔۔۔۔ تو بیٹا کوئی میڈیسن لینی تھی۔۔۔۔۔۔ وہ فکر مند ہوئیں۔۔۔ میں لے لوں گی ماما کُچھ دیر تک۔۔۔۔ اچھا میں تم سے کُچھ بات کرنے آئی ہوں۔۔۔نادیہ بیگم نے کہا۔ جی ماما کہیں میں سن رہی ہوں۔۔۔ وہ متوجہ ہوئی بیٹا تم ہمارا مان ہو ہماری عزت اور ہمارا فخر ہو ہم تمہارے لیے کوئی غلط فیصلہ نہیں کریں گے۔۔۔۔ انہوں نے تمہید باندھی۔۔۔ جی ماما مجھے پتہ ہے آپ ایسے کیوں کہہ رہی ہیں۔۔۔۔ وہ الجھی۔۔۔ بیٹا ہم نے تمہارا رشتہ طے کر دیا ہے اور شایان کے ولیمے پہ تمہاری منگنی ہے۔ اور مجھے پورا یقین ہے میری بیٹی ہمارے فیصلے کا مان رکھے گی انکار نہیں کرے گی۔۔۔۔۔۔ وہ اس کی طرف پیار سے دیکھتیں بولیں۔۔۔ جبکہ اسے ایسا لگا جیسے اس کے سر پر دھماکہ ہوا ہو۔۔۔ فضا میں آکسیجن کی کمی سی محسوس ہوئی کہ اس کا سانس اس کے گلے میں ہی اٹک گیا۔۔۔ ممم ماما مم منگنی ممگر اتنی جج جلدی۔۔۔۔۔۔۔وہ اٹک اٹک کر بولی۔۔۔ ہاں بیٹا ابھی صرف منگنی …… رخصتی تمہاری بعد میں کی جائے گی تمہیں اپنے ماں باپ کا فیصلہ قبول ہے نہ؟؟؟ اس کا سر سہلاتے ہوئے پوچھا۔۔۔۔۔ اسے سمجھ نہ آیا کہ وہ کیا جواب دے ایک طرف اس کی محبت اس کا عشق اور ایک طرف ماں باپ کا مان ۔۔۔ وہ کس کا ساتھ دیتی۔۔۔ والدین اور درید کی محبت دونوں اس کے لیے اہم تھے درید کا سوچتے اس کی آنکھیں نم ہوئییں ۔۔۔۔۔ پھر اس کے آج کے غصے اس کی غلط فہمی کا سوچتے وہ گم صم بیٹھی ہاں میں سر ہلا گئی۔۔۔۔ شاباش میرا بچہ مجھے اپنی بیٹی پہ پورا بھروسہ تھا کہ وہ کبھی ہمارا مان نہیں توڑے گی اب تم آرام کرو میں چلتی ہوں ۔۔۔۔۔ وہ اس کا ماتھا چومتے گویا ہوئیں اور اس کے کمرے کا دروازہ بند کرتے باہر نکل گئیں ان کے جاتے ہی وہ بلک بلک کر رونے لگی۔۔۔۔۔۔ وہ اپنی محبت کا ماتم منانے میں اتنا گم تھی کہ یہ بھی نہ پوچھ سکی کہ اس کا رشتہ کس سے طے کیا گیا ہے۔۔۔۔۔


وہ ساوی کو منائے بغیر ہی آفس واپس آگیا تھا اسے احساس تھا کہ اس نے ساوی پہ بے جا غصہ کیا تھا مگر اب کیا ہوسکتا تھا۔۔۔۔ اس کا رادہ تھا آج گھر جا کے چچا چچی سے بات کرنے کا اپنے اور ساوی کے بارے میں۔۔۔۔۔ اس لیے وہ جلدی جلدی کام ختم کر رہا تھا۔۔۔ اآدھے گھنٹے بعد اس نے کام ختم کیا اور گھر جانے کے لیے اُٹھنے لگا کہ پیون ہاتھ میں ایک خاکی کلر کا لفافہ پکڑے اندر داخل ہوا۔۔۔ صاحب آپ کا پارسل آیا ہے۔۔۔۔۔ وہ درید کی طرف پارسل بڑھا کر بولا ۔۔۔ اس نے پیون کو جانے کا اشارہ کرتے لفافہ تھاما اور کھولنے لگا اندر کُچھ تصویریں تھیں جن پہ نظر پڑتے ہی اس کے خون میں شرارے دوڑنے لگے۔۔۔۔ وہ ساوی اور اشعر کی تصویریں تھیں ۔۔۔۔۔ ایک تصویر میں وہ دونوں گاڑی میں بیٹھ رہے تھے ایک تصویر میں وہ ایک ریسٹورینٹ میں داخل ہو رہے تھے اگلی تصویر میں اشعر نے ساوی کے ہاتھوں کو تھام رکھا تھا اس سے اگلی تصویر میں اشعر کے ہاتھوں میں ساوی کا چہرہ تھا ۔۔۔۔ ایک ایک تصویر دیکھتے اس کا غصے سے بُرا حال تھا ۔۔۔ اسے پتہ تھا یہ اشعر کا کام ہے لیکن ساوی ؟؟ وہ اس کے ساتھ کیا کر رہی تھی؟؟ یہ سوال ہتھوڑے کی طرح اس کے دماغ میں بج رہا تھا۔۔۔۔۔ اس نے ساری تصویریں اٹھائیں اور لاکر میں ڈال کر لاک کر دیں ۔۔۔ وہ سرخ چہرے کے ساتھ باہر نکلا ۔۔ وہ پارسل کون دے کے گیا تھا ؟؟؟ اس نے پیون سے پوچھا۔۔ جی صاحب ایک لڑکا تھا اس نے کہا کہ اپنے درید صاحب کو دے دینا ۔۔۔۔۔ پیون نے سر جھکائے کہا۔۔۔۔ وہ ایک نظر اسے دیکھتا آفس سے باہر نکل آیا اس کا ارادہ آج ساوی کو منانے کا تھا مگر اب وہ اپنا فیصلہ بدل چکا تھا ساوی کی اس حرکت کے بعد وہ اسے سزا دینے کا ارادہ رکھتا تھا وہ اسے بتائے بغیر اشعر سے ملنے کیسے جا سکتی تھی؟؟؟ وہ ریش ڈرائیونگ کرتا گھر پہنچا مراد صاحب آج اس سے پہلے ہی گھر جا چکے تھے۔۔۔۔۔ وہ لاونج کے دروازے پہ پہنچا ہی تھا کہ اندر سے آتی آواز پہ اسے لگا اس کا دل کسی نے نوچ لیا ہو۔۔۔۔ ساوی نے منگنی کے لیے ہاں کر دی ہے اسے کوئی اعتراض نہیں اور میں سوچ رہی تھی رخصتی اس کی پڑھائی کے بعد کریں اور درید۔۔۔۔ نادیہ بیگم مراد صاحب سے آگے بھی کُچھ کہہ رہی تھیں مگر اس میں ہمت نہیں تھی کُچھ اور سننے کی۔۔۔ وہ ٹوٹے دل کے ساتھ واپس گاڑی میں بیٹھا اور زن سے گھر سے نکل گیا ۔۔۔۔۔۔۔۔


وہ اس وقت جم میں موجود تھا اور اپنا سارا غصہ پنچنگ بیگ پہ اتار رہا تھا۔۔۔ اس وقت وہ بلیک ٹراوزر اور بلیک سلیو لیس ٹی شرٹ میں ملبوس تھا ۔۔۔اس کا پورا جسم پسینے میں نہایا ہوا تھا مگر وہ لگاتار پنچنگ بیگ پر پنچ مار رہا تھا ۔۔۔ اردگرد سے بے خبر وہ اپنے کام میں مصروف تھا ۔۔۔جب اس کا فون بج اُٹھا ۔۔۔۔۔۔ وہ بے نیاز بنا رہا مگر فون بند نہ ہوا اور مسلسل بجتا گیا اور اس کے غصے کو مزید ہوا دے گیا۔۔۔۔ اس نے جا کر فون اُٹھایا اور کان سے لگایا ۔۔۔ کیا تکلیف ہو گئی ہے تمہیں جو سکون نہیں آرہا ۔۔۔۔۔۔ وہ دھاڑتے ہوئے بولا ۔۔۔ بب باس میں ہوں حیدر ۔۔۔۔۔ آگے سے حیدر کی منمناتی سی آواز آئی ۔۔۔ جانتا ہوں آگے بکو۔۔۔۔ وہ ہنوز غصے سے بولا ۔ وہ باس جس ہاسپٹل کا آپ نے اڈریس دیا تھا وہاں سے معلومات مل گئی ہیں ۔۔۔۔۔۔ اتنا کہہ کر وہ چپ ہو گیا۔۔۔ حیدر میرے پاس اتنا وقت نہیں ہوتا کہ تم بات کر کے چپ ہو جاو اور آگے سے میں بکواس کرتا رہوں کہ آگے بولو آگے بولو ۔۔۔۔ پور ی بات بتایا کرو ۔۔۔۔ وہ اس پر دھاڑا۔ جج جی باس وووہ نور نامی لڑکی اسی دن ہسپتال ملنے گئی تھی اور کسی گائنالوجسٹ سے اس کا اپائنمنٹ تھا اور سب سے اہم بات جو پتہ چلی ہے وہ یہ کہ وہ لڑکی پریگنٹ ہے اور اس کی پریگننسی کو ساڑھے آٹھ ماہ ہو چکے ہیں اور وہ روٹین چیک اپ کے لیے ہسپتال آئی تھی۔۔۔۔۔ وہ جلدی جلدی بولتے سانس لینے کو رکا۔۔۔ جبکہ حیدر کی بات سن کے اس کا دماغ سن پڑ گیا ۔۔۔۔اس کی نور پریگننٹ تھی وہ بھی ساڑھے آٹھ ماہ سے۔۔۔۔۔۔ مطلب وہ ۔۔۔۔۔ اس سے آگے اس سے کُچھ سوچا ہی نہیں گیا۔۔۔۔ وہ کس کے ساتھ آئی تھی؟؟؟ اپنے حواس مجتمع کرتے اس نے بمشکل پوچھا۔۔۔۔ کسی عورت کے ساتھ آئی تھی۔۔ اور اس کا شوہر ساتھ نہیں تھا جس سے معلومات لی ہیں اس کا کہنا تھا کہ لڑکی گم سم سی تھی اور جب اس سے شوہر کا پوچھا ڈاکٹر نے تو اس نے کہا اس کا شوہر نہیں ہے ۔۔۔۔۔۔ اب پتہ نہیں شوہر سے طلاق لے لی ہے یا وہ مرچکا ہے یہ بات پتہ نہیں چل سکی۔۔۔۔ حیدر نے حاصل ہوئی ساری معلومات اس کے گوش گزار دیں۔۔۔ فون رکھو۔۔۔۔۔۔ اسے کہہ کر وہ فون بند کر گیا۔۔۔۔اس کا دماغ سائیں سائیں کر رہا تھا اس کے دماغ میں ہتھوڑے بج رہے تھے ایسا لگ رہا تھا جیسے دماغ کی نسیں پھٹ جائیں گی۔۔۔۔۔اس سے ضبط کرنا مشکل ہو رہا تھا ۔۔۔۔ اس کی نور ماں بننے والی تھی اور پتہ نہیں اس حال میں جہاں اسے اپنوں کی ضرورت تھی وہ جانے کہاں بھٹک رہی تھی ۔۔۔۔۔ لیکن یہ سب ہوا بھی تو اسی کی وجہ سے تھا نا آج اس کی نور بھٹک رہی تھی تو وہ ہی اس کا ذمہ دار تھا اس کا گنہگار تھا۔۔۔۔ یہ سب سوچتے وہ آنکھیں میچ گیا۔۔۔۔۔ وہ فون وہی پھینکتا جم سے باہر نکلا اور اُن کے کمرے کی طرف بڑھا اور ٹھاہ کی آواز سے دروازہ کھولا ۔۔۔ وہ اسے اس انداز میں آتے دیکھ کر چونک گئیں اس کی آنکھیں ضبط کی شدت سے سرخ ہو رہی تھیں۔۔۔۔ جب وہ یہاں سے گئی تو کس حال میں تھی؟؟؟ اس نے ان سے پوچھا۔ مطلب میں کُچھ سمجھی نہیں ۔۔۔۔۔۔ وہ حیران ہوئیں اس کے سوال پر۔۔۔ وہ جب یہاں سے گئی تو کیا وہ پریگنٹ تھی؟؟؟؟ اب کی بار وہ چیخا۔ اور اس کے منہ سے یہ بات سن کے وہ شاکڈ رہ گئیں یہ بات تو ان کے علاوہ کوئی نہیں جانتا تھا ۔۔۔۔ مم میری بات سنو ۔۔۔۔۔ انہوں نے بولنے کی کوشش کی۔۔ ہاں یا ناں۔۔۔۔۔۔ وہ ایک بار پھر چلایا ۔۔۔ ہاں وہ ماں بننے والی تھی جب اس گھر سے گئی ۔۔۔۔۔ وہ روتے ہوئے اعتراف کر رہی تھیں ۔ اور وہ ان کی بات سن کے ساکت رہ گیا۔۔۔ آپ جانتی تھیں آپ جانتی تھیں یہ سب پھر بھی مجھے نہیں بتایا آٹھ ماہ ہوگئے اسے گئے پھر بھی ایک بار آپ نے مجھے نہیں بتایا کیوں کیا ایسا کیوں ؟؟؟؟؟ کس بات کی سزا دے رہی ہیں مجھے۔۔۔۔ بتائیں ؟؟ کیوں چھپائی مجھ سے اتنی بڑی بات ؟؟؟؟ پتہ نہیں وہ کہاں رہتی ہے کس حال میں کن لوگوں کے ساتھ ۔۔۔۔ وہ لمبا جوان مرد فرش پہ بیٹھا دھاڑیں مار مار کے رو رہا تھا اس کی برداشت سے باہر تھی یہ تکلیف ۔۔۔۔ اتنی بڑی بات چھپائی گئی اس سے۔۔۔۔وہ روتا نہ تو کیا کرتا ۔۔۔ اگر اسے کُچھ ہوا نہ تو میں اپنی جان بھی لے لوں گا میں سچ کہہ رہا ہوں مار دوں گا میں خود کو ۔۔۔۔ دعا کریں وہ ٹھیک ہو ورنہ اس کے ساتھ آپ مجھے بھی کھو دیں گی۔۔۔۔ وہ آنکھیں مسلتا باہر نکل گیا۔۔۔۔ جبکہ اس کی حالت دیکھ وہ اپنے آنسووں پہ بند نا باندھ سکیں ۔۔۔۔

   0
0 Comments